نظم
تجھے پتا ہی نہیں ہے مرے غزال بدن
کہ تیری چھت سے ذرا ہٹ کے ایک کونے میں
وہ ماہتاب تجھے دیکھنے کو آتا ہے
ستارے تیری تمازت سے جلتے بجھتے ہیں
اور آفتاب ترے در پہ سر جھکاتا ہے
تجھے پتا ہی نہیں ہے مرے غزال بدن
تُو جس کا نام پکارے وہ خود پہ مر جائے
جہاں بھی دیکھے تُو بادِ صبا ادھر جائے
تو ایک بار کہے؛ یوں نہیں ہے، ایسا ہے
تو اگلا بندہ کہی بات سے مکر جائے
تجھے پتا ہی نہیں ہے مرے غزال بدن
یہ کوزہ گر تری انگڑائیوں سے جلتے ہیں
یہ شیشہ گر تری پرچھائیوں سے جلتے ہیں
تُو ایک بار مجھے مسکرا کے دیکھتا ہے
چراغ جیسے نئے زاویوں سے جلتے ہیں
کبھی کبھی میں تجھے دیکھ کر یہ سوچتا ہوں
اے کاش میں بھی تجھے خواب میں ملا ہوتا
تجھے پتا ہی نہیں ہے مرے غزال بدن
تجھے پتا ہی نہیں ہے، اگر پتا ہوتا؟؟
ولید ولی
No comments:
Post a Comment