Sunday 29 November 2020

بنا مطلب کی دنیا میں کوئی کب دل سے ملتا ہے

بِنا مطلب کی دنیا میں کوئی کب دل سے ملتا ہے

جو ہر مشکل کا ساتھی ہو بڑی مشکل سے ملتا ہے

ہزاروں وسوسے لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتے ہیں

امیرِ شہر جب جا کر کسی قاتل سے ملتا ہے

کریں بے شک نہ باتیں آپ لیکن بیٹھا رہنے دیں

سکونِ دل ہمیں بس آپ کی محفل سے ملتا ہے

گھروندے ریت کے سب ڈوب جاتے ہیں کناروں پر

سمندر جب بھی ٹکرا کر کسی ساحل سے ملتا ہے

مجھے پاگل بنا رکھا ہے اس کی شوخ نظروں نے

مگر وہ ہے کہ پھر بھی روز ہر عامل سے ملتا ہے

زمین و آسماں اعجاز دونوں ہی لرزتے ہیں

تکبر سے زمانہ جب کسی سائل سے ملتا ہے


اعجاز قریشی

No comments:

Post a Comment