جواب دیتے ہوئے اک سوال کا دکھ ہے
مرے نصیب میں یارو! کمال کا دکھ ہے
جھجھک جھجھک کے مرے گر رہے ہیں جو آنسو
سنو! یہ اب کا نہیں پچھلے سال کا دکھ ہے
امیرِ شہر کے ڈیرے پہ ناچنے والی
غریب لڑکی کے حسن و جمال کا دکھ ہے
گلے میں ہار سجائے منا رہے ہیں خوشی
جنہیں کلائی پہ بندھے رومال کا دکھ ہے
شریک ہونا، نہ ہونا الگ کہانی ہے
تمہارے ہاتھ میں مہندی کے تھال کا دکھ ہے
سپردِ خاک کیے اپنے ہاتھ سے کئی لوگ
جو بھوک سے ہوا، اس انتقال کا دکھ ہے
مبشر واصل
No comments:
Post a Comment