Monday 30 November 2020

سورج مری ہتھیلی پہ یادوں کا دھر گئے

 سورج مِری ہتھیلی پہ یادوں کا دھر گئے

مجھ کو تڑپتا چھوڑ کے جانے کدھر گئے

جو خواب میرے ان میں مِرے وہ بھی دیکھتے

آنکھوں کی تم تو صرف بناوٹ پہ مر گئے

مایوسیوں کی راہ پہ یوں مجھ کو چھوڑ کر

خود جانے کس کے ساتھ کہاں اور کدھر گئے

روداد مختصر سی ہے اپنی حیات کی

تیرے کرم کے ساتھ جئے اور مر گئے

پہلے تو اہلِ زر نے مِری دھوپ چھین لی

پھر تُند اس ہوا میں مِرے بام و در گئے

راضی نہ ہو سکا وہ ملاقات پر کبھی

کیا کیا بدل کے بھیس مِرے نامہ بر گئے

درکارآئینہ تھا مِرے شہر کو بھی رض

دیکھا جب آئینہ تو کئی لوگ ڈر گئے


رضوانہ ملک

No comments:

Post a Comment