اٹھا کے لاشے کو بے ربط ناچنا ہے مجھے
یہاں پہ کون ہے میرا یہ دیکھنا ہے مجھے
سمجھ سکا نہ یہاں کوئی بھی مرے دل کو
سو خود کو توڑ کے آسان جوڑنا ہے مجھے
نگل نہ جائے کہیں مجھ کو میری خاموشی
سو اپنے کان میں خود آج چیخنا ہے مجھے
بنا کے ریت پہ تصویر اپنی ہاتھوں سے
خود اپنے قد کو حقیقت میں ناپنا ہے مجھے
نکل کے جسم کے زندان سے اے شہرِِ سخن
تری گلی، ترے کوچوں سے بھاگنا ہے مجھے
تمہارے جیسا میں ہو جاؤں اس لیے اب تو
لہو کے تیل میں دن رات کھولنا ہے مجھے
شکست دینے کی خاطر غرور کو اپنے
خود اپنے آپ کو بے مول بیچنا ہے مجھے
ملا نہیں ہوں میں خود سے، ہوا ہوں گم ایسا
سخن لپیٹ کے اب خود کو کھوجنا ہے مجھے
کِیا ہے موجِ نسیمی نے دل کا میرے طواف
ہر ایک وار کو اب ہنس کے روکنا ہے مجھے
نسیم شیخ
No comments:
Post a Comment