Saturday 28 November 2020

اٹھا کے لاشے کو بے ربط ناچنا ہے مجھے

 اٹھا کے لاشے کو بے ربط ناچنا ہے مجھے

یہاں پہ کون ہے میرا یہ دیکھنا ہے مجھے

سمجھ سکا نہ یہاں کوئی بھی مرے دل کو

سو خود کو توڑ کے آسان جوڑنا ہے مجھے

نگل نہ جائے کہیں مجھ کو میری خاموشی

سو اپنے کان میں خود آج چیخنا ہے مجھے

بنا کے ریت پہ تصویر اپنی ہاتھوں سے

خود اپنے قد کو حقیقت میں ناپنا ہے مجھے

نکل کے جسم کے زندان سے اے شہرِِ سخن

تری گلی، ترے کوچوں سے بھاگنا ہے مجھے

تمہارے جیسا میں ہو جاؤں اس لیے اب تو

لہو کے تیل میں دن رات کھولنا ہے مجھے

شکست دینے کی خاطر غرور کو اپنے

خود اپنے آپ کو بے مول بیچنا ہے مجھے

ملا نہیں ہوں میں خود سے، ہوا ہوں گم ایسا

سخن لپیٹ کے اب خود کو کھوجنا ہے مجھے

کِیا ہے موجِ نسیمی نے دل کا میرے طواف

ہر ایک وار کو اب ہنس کے روکنا ہے مجھے


نسیم شیخ

No comments:

Post a Comment