Sunday 29 November 2020

یہ کمرہ سانس لیتا تھا میں اس میں زندہ رہتا تھا

 یہ کمرہ سانس لیتا تھا

میں اس میں زندہ رہتا تھا

کبھی وہ دن بھی تھے کہ

اس کمرے میں

ہلکی بارشوں کی پھوار کی صورت

تیرے میسج کے آنے پر

رابطے کی گھنٹی گونجتی تھی

تو ذہن و دل میں اک سرورِ خوشنما سا

پھیل جاتا تھا

مگر مدت ہوئی جاناں

تیرے جانے کے بعد اس کمرے پہ

اک خاموش ویرانی چھائی رہتی ہے

شکستہ یاد کے سارے دریچے منہ چھپائے

دھیمے دھیمے سسکیاں بھرتے ہوئے

بے گانگی سے چھت کی جانب تکتے رہتے ہیں

یہاں ہارے ہوئے خوابوں کی کچھ چنگاریاں

باقی پڑی ہے اور

میں مردہ سا اس کمرے میں بیٹھا سوچتا ہوں

یار

یہ کمرہ سانس لیتا تھا

میں اس میں زندہ رہتا تھا


سلمان انصاری

No comments:

Post a Comment