یہ کمرہ سانس لیتا تھا
میں اس میں زندہ رہتا تھا
کبھی وہ دن بھی تھے کہ
اس کمرے میں
ہلکی بارشوں کی پھوار کی صورت
تیرے میسج کے آنے پر
رابطے کی گھنٹی گونجتی تھی
تو ذہن و دل میں اک سرورِ خوشنما سا
پھیل جاتا تھا
مگر مدت ہوئی جاناں
تیرے جانے کے بعد اس کمرے پہ
اک خاموش ویرانی چھائی رہتی ہے
شکستہ یاد کے سارے دریچے منہ چھپائے
دھیمے دھیمے سسکیاں بھرتے ہوئے
بے گانگی سے چھت کی جانب تکتے رہتے ہیں
یہاں ہارے ہوئے خوابوں کی کچھ چنگاریاں
باقی پڑی ہے اور
میں مردہ سا اس کمرے میں بیٹھا سوچتا ہوں
یار
یہ کمرہ سانس لیتا تھا
میں اس میں زندہ رہتا تھا
سلمان انصاری
No comments:
Post a Comment