دکان دیکھ کے پہلے تو وہ اچهل پڑے گا
پهر ایک شے نہ خریدے گا اور چل پڑے گا
میں ایک اسم بتاتا ہوں تم کو تشنہ لبو
جہاں بهی چاہو گے چشمہ وہیں ابل پڑے گا
جہان ساز! میں لے جا رہا ہوں اپنا جہاں
بنا نہیں ہے، مگر میرا کام چل پڑے گا
میں جوں ہی لوٹ کے آنے لگوں گا گهر کی طرف
وہیں کہیں سے کوئی راستہ نکل پڑے گا
مرے چراغ کو حاجت نہیں کسی لَو کی
میں اس کو ہاتھ لگاؤں گا اور جل پڑے گا
امیرِِ شہر ترے قصر کا بنے گا کیا؟
گدائے شہر تو کاسہ اٹها کے چل پڑے گا
دکها تو لاؤں تجهے بهی جہانِ نادیدہ
مری اڑان میں اس سے مگر خلل پڑے گا
بتانے والا رہے گا نہ کوئی کیا تها کہاں
جہانوں بیچ کچھ اس طرح کا جدل پڑے گا
چلوں گا میں تو پهر ایسے یونہی مروت میں
یہ راستہ بهی مرے ساتھ ساتھ چل پڑے گا
طارق نعیم
No comments:
Post a Comment