Sunday 29 November 2020

دکان دیکھ کے پہلے تو وہ اچهل پڑے گا

 دکان دیکھ کے پہلے تو وہ اچهل پڑے گا

پهر ایک شے نہ خریدے گا اور چل پڑے گا

میں ایک اسم بتاتا ہوں تم کو تشنہ لبو

جہاں بهی چاہو گے چشمہ وہیں ابل پڑے گا

جہان ساز! میں لے جا رہا ہوں اپنا جہاں

بنا نہیں ہے، مگر میرا کام چل پڑے گا

میں جوں ہی لوٹ کے آنے لگوں گا گهر کی طرف

وہیں کہیں سے کوئی راستہ نکل پڑے گا

مرے چراغ کو حاجت نہیں کسی لَو کی

میں اس کو ہاتھ لگاؤں گا اور جل پڑے گا

امیرِِ شہر ترے قصر کا بنے گا کیا؟

گدائے شہر تو کاسہ اٹها کے چل پڑے گا

دکها تو لاؤں تجهے بهی جہانِ نادیدہ

مری اڑان میں اس سے مگر خلل پڑے گا

بتانے والا رہے گا نہ کوئی کیا تها کہاں

جہانوں بیچ کچھ اس طرح کا جدل پڑے گا

چلوں گا میں تو پهر ایسے یونہی مروت میں

یہ راستہ بهی مرے ساتھ ساتھ چل پڑے گا


طارق نعیم

No comments:

Post a Comment