لبِ دریا جو پیاسے مر گئے ہیں
جنوں کا نام روشن کر گئے ہیں
💢حسینیؑ قافلہ جب یاد آیا
کٹورے آنسوؤں سے بھر گئے ہیں
جنہیں سورج نے بھی دیکھا نہ ہو گا
وہ ننگے پاؤں ننگے سر گئے ہیں
وہ کب کے جا بسے اس پار لیکن
کئی یادیں یہاں بھی دھر گئے ہیں
جنہیں تھا شوق میلہ دیکھنے کا
وہ سارے لوگ اپنے گھر گئے ہیں
💥ہمارے عہد کا یہ المیہ ہے
اجالے تیرگی سے ڈر گئے ہیں
تُو ان کو ڈھونڈھتا پھرتا ہے حسرت
جو دنیا سے کنارا کر گئے ہیں
اجیت سنگھ حسرت
No comments:
Post a Comment