رات سے زیادہ وفادار نہیں ہے کوئی
زیست کے روز و شب
دنیا کے ہنگاموں میں مگن
دن کی اک ایک گھڑی
اوروں کی خدمت خاطر
لمحہ لمحہ اوروں کو جب دان کیا
خالی ہاتھوں سے جو لوٹے ہیں
پھر اپنے اصل کی جانب
تھکے ہارے ہوئے اجسام سے
اب سوچتے ہیں
رات سے زیادہ وفادار
کوئی چیز نہیں
رات بھی ایسی کہ تنہا ہو
اندھیری ہو اور طویل بھی ہو
رات یوں درد سبھی خود میں سمو لیتی ہے
جیسے افلاک پہ تاروں کی چمک رہتی ہے
جیسے گمنام ہواؤں کے پروں پہ
خاموش اداسی جھومے
جیسے خاموشی میں آتی
کسی جھینگر کی صدا
اور اس رات میں اترے
تیری یادوں کی پری
جس سے ہم بات کریں
رات گئے سحر تلک
دل یہ کہتا ہو کہ
یہ رات ہی بس رک جائے
زندگی پھر سے کسی دن کی طلبگار نہ ہو
رات سے زیادہ وفادار نہیں ہے کوئی
سلمان انصاری
No comments:
Post a Comment