Friday 27 November 2020

بڑے سکوں سے خسارے شمار کرتی ہوں

 بڑے سکوں سے خسارے شمار کرتی ہوں

میں رات جاگ کے تارے، شمار کرتی ہوں

💢کروں شمار تو تعداد گھٹنے لگتی ہے

میں جب بھی اپنے سہارے شمار کرتی ہوں

مرا تو کچھ بھی نہیں، جو ہے سب تمہارا ہے

میں اپنے سارے، تمہارے شمار کرتی ہوں

'کیوں پوچھتے ہو، 'مجھے بھی شمار کرتی ہو

شمار کرتی ہوں پیارے! شمار کرتی ہوں

تمہارے حصے کے سب خواب میں ہی دیکھتی ہوں

اور اس پہ ان کو 'ہمارے' شمار کرتی ہوں

میں شاعرہ ہوں، فقط تم پہ شعر کیسے کہوں

میں سارے درد کے مارے ، شمار کرتی ہوں

ہنسی کی رت میں بھی آنکھیں اداس رہتی ہیں

میں آنسوؤں کے'شمارے' شمار کرتی ہوں

یہی ہے بخت، اسی بخت پر قناعت ہے

میں آدھے لوگ بھی سارے شمار کرتی ہوں

ان آنسوؤں کو سمجھتی ہوں نور آنکھوں کا

انہیں ہی مانگ کے تارے شمار کرتی ہوں

شمار ہونا حدوں کی دلیل ہوتا ہے

تجھے یہ ضد ہے تو آ، رے، شمار کرتی ہوں


ثروت مختار

No comments:

Post a Comment