خاک پر خون کی تحریر سے پہچانے گئے
ترے وحشی تری زنجیر سے پہچانے گئے
اپنی تصویر سے ممکن ہی نہ تھی اپنی شناخت
ہم کسی اور کی تصویر سے پہچانے گئے
جن میں روشن تھا تری دید کا سودا وہ سر
لاکھ اندھیرے میں بھی شمشیر سے پہچانے گئے
کیا قیامت ہے کہ سو بار کے سوچے ہوئے لوگ
سامنے آئے تو تاخیر سے پہچانے گئے
دوست پہچانے گئے اپنے نشانے سے، اور
ہم بھی سینے میں لگے تیر سے پہچانے گئے
خواب میں تو کوئی چہرہ ہی نہیں تھا ان کا
ہیں کچھ اک غم کہ جو تعبیر سے پہچانے گئے
خامشی اصل میں اسلوب تھی ہم جیسوں کا
ہم اسی لہجۂ تقریر سے پہچانے گئے
ذہنِ تاریک میں بے نام و نسب تھے کچھ درد
جو چمک اٹھنے کی تدبیر سے پہچانے گئے
ابھیشیک شکلا
No comments:
Post a Comment