Sunday, 29 November 2020

خاک پر خون کی تحریر سے پہچانے گئے

 خاک پر خون کی تحریر سے پہچانے گئے

ترے وحشی تری زنجیر سے پہچانے گئے

اپنی تصویر سے ممکن ہی نہ تھی اپنی شناخت

ہم کسی اور کی تصویر سے پہچانے گئے

جن میں روشن تھا تری دید کا سودا وہ سر

لاکھ اندھیرے میں بھی شمشیر سے پہچانے گئے

کیا قیامت ہے کہ سو بار کے سوچے ہوئے لوگ

سامنے آئے تو تاخیر سے پہچانے گئے

دوست پہچانے گئے اپنے نشانے سے، اور

ہم بھی سینے میں لگے تیر سے پہچانے گئے

خواب میں تو کوئی چہرہ ہی نہیں تھا ان کا

ہیں کچھ اک غم کہ جو تعبیر سے پہچانے گئے

خامشی اصل میں اسلوب تھی ہم جیسوں کا

ہم اسی لہجۂ تقریر سے پہچانے گئے

ذہنِ تاریک میں بے نام و نسب تھے کچھ درد

جو چمک اٹھنے کی تدبیر سے پہچانے گئے


ابھیشیک شکلا

No comments:

Post a Comment