طنابِ کرب نہ خارِ ملال کھینچتا ہے
وہ اب چھوئے بھی تو لگتا ہے کھال کھینچتا ہے
کسی کے درد کے دریا میں ڈوبنے والو
مچھیرا وہ ہے جو پانی سے جال کھینچتا ہے
تمہارا ہجر کسی شرٹ کے بٹن کی طرح
کبھی کبھی مرے سینے کے بال کھینچتا ہے
سخی کی خیر ہو مولا کہ اس کی چوکھٹ سے
فقیر اٹھتا ہے، دستِ سوال کھینچتا ہے
غمِ معاش لیے پھر رہا ہے ایسے ہمیں
کسی حریص کو جیسے دلال کھینچتا ہے
کسی کی یاد کا ہل چل رہا ہے یوں جیسے
بدن میں گاڑ کے کوئی کدال کھینچتا ہے
بس ایک بار اڑا تھا منڈیر سے تیری
دل اب تو شہر کی سڑکوں پہ فال کھینچتا ہے
اک ایسے شخص کو لڑنا سکھا رہا ہوں جو خود
عدو سے تیغ، محافظ سے ڈھال کھینچتا ہے
ضمیر قیس
ضمیر حسن
No comments:
Post a Comment