ارادہ روز کرتا ہوں، مگر کچھ کر نہیں سکتا
میں پیشہ ور فریبی ہوں، محبت کر نہیں سکتا
میں تم سے صاف کہتا ہوں، مجھے تم سے نہیں الفت
فقط لفظی محبت ہے، میں تم پہ مر نہیں سکتا
محبت کی مسافت نے بہت زخمی کیا مجھ کو
ابھی یہ زخم بھرنے ہیں، میں آہیں بھر نہیں سکتا
یہاں ہر ایک چہرے پر الگ تحریر لکھی ہے
میری آنکھوں میں آنسو ہیں، ابھی کچھ پڑھ نہیں سکتا
میں اپنی رات کی زلفوں میں خود چاندی سجاتا ہوں
میں اس کی مانگ میں وعدوں کے ہیرے جَڑ نہیں سکتا
بھلے جھوٹا منافق ہوں، بہت دھوکے دئیے، لیکن
محبت کی صدا ہوں میں، میں دھوکا کر نہیں سکتا
میں اس گھر کا مقیمی ہوں، جسے اوقات کہتے ہیں
میں اپنی حد میں رہتا ہوں، سو آگے بڑھ نہیں سکتا
ابھی کچھ شعر رہتے ہیں، مگر لکھنے نہیں ہرگز
کسی کی لاج رکھنی ہے، سو ظاہر کر نہیں سکتا
علی سرمد
No comments:
Post a Comment