بن رہا ہے خود سے رشتہ آج کل
خاک پر بستر ہے اپنا آج کل
جس کو سمجھا تھا بھلا بیٹھا ہوں میں
آ رہا ہے یاد کتنا آج کل
دل کو پھر وہ ہی جنوں مطلوب ہے
پھر اسی کی ہے تمنا آج کل
جس پہ برسوں ہم خموشی سے چلے
شور کرتا ہے وہ رستہ آج کل
داستاں لکھتا ہوں پوری شعر میں
لوگ پڑھتے ہیں خلاصہ آج کل
پھر کوئی ہے امتحاں در پیش کیا
مہرباں مجھ پر ہے دنیا آج کل
زخمِ دل سمجھے تھے جو ہم بھر چکا
ہو رہا ہے زین گہرا آج کل
انوار زین
No comments:
Post a Comment