Sunday 29 November 2020

تیری یاد خار گلاب ہے

 تیری یاد خار گلاب ہے


وہی منزلیں وہی راستے

وہی رتجگے وہی فاصلے

نہ تو نیند ہے، نہ ہی خواب ہے

جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل

تیری یاد خار گلاب ہے


کبهی سوچتی ہوں بهُلا ہی دوں

تیرا نقش دل سے مِٹا ہی دوں

نہیں اور کچھ، یہ عذاب ہے

جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل

تیری یاد خار گلاب ہے


مجھے زخم دے مجھے گهاؤ دے

مجھے درد کے تو الاؤ دے

میرے راستے میں چناب ہے

جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل

تیری یاد خار گلاب ہے


نہ گزر ہوئی نہ بسر ہوئی

شب غم ڈهلی، نہ سحر ہو ئی

یہ کرم ہے یا یہ عتاب ہے

جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل

تیری یاد خار گلاب ہے


مجھے چهوڑ کر یونہی خستہ جاں

تو کہاں گیا میرے بد گماں

کوئی تیرے پاس جواب ہے؟

جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل

تیری یاد خار گلاب ہے


فاطمہ نجیب

No comments:

Post a Comment