تیری یاد خار گلاب ہے
وہی منزلیں وہی راستے
وہی رتجگے وہی فاصلے
نہ تو نیند ہے، نہ ہی خواب ہے
جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل
تیری یاد خار گلاب ہے
کبهی سوچتی ہوں بهُلا ہی دوں
تیرا نقش دل سے مِٹا ہی دوں
نہیں اور کچھ، یہ عذاب ہے
جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل
تیری یاد خار گلاب ہے
مجھے زخم دے مجھے گهاؤ دے
مجھے درد کے تو الاؤ دے
میرے راستے میں چناب ہے
جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل
تیری یاد خار گلاب ہے
نہ گزر ہوئی نہ بسر ہوئی
شب غم ڈهلی، نہ سحر ہو ئی
یہ کرم ہے یا یہ عتاب ہے
جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل
تیری یاد خار گلاب ہے
مجھے چهوڑ کر یونہی خستہ جاں
تو کہاں گیا میرے بد گماں
کوئی تیرے پاس جواب ہے؟
جو چبھے ہے دل میں ہر ایک پل
تیری یاد خار گلاب ہے
فاطمہ نجیب
No comments:
Post a Comment