ظلم چکھا یا بے حسی چکھی
کیا کبھی تم نے بے بسی چکھی
موت ملتی رہی پیالہ بھر
ایک ہی گھونٹ زندگی چکھی
چاند جب شاخ پہ اتر آیا
تب درختوں نے چاندنی چکھی
رکھ کے انگلی زبان پر اس کی
آج تھوڑی سی روشنی چکھی
شہد کا ذائقہ تو چکھا ہے
کیا کبھی آنکھ شربتی چکھی
اس کا لہجہ سماعتوں میں گھلا
جیسے کانوں نے شاعری چکھی
سامنے رکھ کے چائے کی پیالی
چسکی چسکی تری کمی چکھی
آج آنکھوں نے اس کو دیکھا تھا
آج پلکوں نے پھر نمی چکھی
چوم کر اک گلاب کا چہرہ
تتلیوں نے بھی دلکشی چکھی
ناہید اختر بلوچ
No comments:
Post a Comment