Friday, 27 November 2020

اپنی تنہائی کے اسباب سمجھ آنے لگے

 اپنی تنہائی کے اسباب سمجھ آنے لگے

جب مجھے ٹھیک سے احباب سمجھ آنے لگے

میں نے اک بار یونہی ہاتھ چھڑایا تجھ سے

خود پہ کھلتے ہوئے ابواب سمجھ آنے لگے

فائدہ یہ ہوا اشجار کی صحبت کا ہمیں

باروَر ہونے کے آداب سمجھ آنے لگے

پہلے پہلے میں انہیں دیکھ کے خوش ہوتا تھا

وقت کے ساتھ مجھے خواب سمجھ آنے لگے

سرِ بازار مری آنکھوں کو خوابوں کے عوض

اور ہی گوہرِ نایاب سمجھ آنے لگے

ڈوبنا پڑ گیا اس شوق میں ہم کو، لیکن

زندگی کے سبھی گرداب سمجھ آنے لگے

پھر کسی نے مرے منصب سے پکارا مجھ کو

جو ملے تھے مجھے القاب سمجھ آنے لگے

اپنے اندر کی فضا ایسے کھلی مجھ پہ شعیب

دشت بے سایہ و بے آب سمجھ آنے لگے


شعیب بخاری

No comments:

Post a Comment