اپنی تنہائی کے اسباب سمجھ آنے لگے
جب مجھے ٹھیک سے احباب سمجھ آنے لگے
میں نے اک بار یونہی ہاتھ چھڑایا تجھ سے
خود پہ کھلتے ہوئے ابواب سمجھ آنے لگے
فائدہ یہ ہوا اشجار کی صحبت کا ہمیں
باروَر ہونے کے آداب سمجھ آنے لگے
پہلے پہلے میں انہیں دیکھ کے خوش ہوتا تھا
وقت کے ساتھ مجھے خواب سمجھ آنے لگے
سرِ بازار مری آنکھوں کو خوابوں کے عوض
اور ہی گوہرِ نایاب سمجھ آنے لگے
ڈوبنا پڑ گیا اس شوق میں ہم کو، لیکن
زندگی کے سبھی گرداب سمجھ آنے لگے
پھر کسی نے مرے منصب سے پکارا مجھ کو
جو ملے تھے مجھے القاب سمجھ آنے لگے
اپنے اندر کی فضا ایسے کھلی مجھ پہ شعیب
دشت بے سایہ و بے آب سمجھ آنے لگے
شعیب بخاری
No comments:
Post a Comment