قیس معزول ہوا، میری بحالی ہوئی ہے
مسندِ عشق مرے واسطے خالی ہوئی ہے
مزرعۂ چشم کو رکھتا ہوں ہمیشہ سیراب
میں نے دریا سے کوئی نہر نکالی ہوئی ہے
لے کے جا مجھ کو کسی اور ہی سیارے پر
یہ جو دنیا ہے بہت میں نے کھنگالی ہوئی ہے
میں فقیری کی ہوا میں ہوں بہت خرم و شاد
خاک میں نے ترے دربار پہ ڈالی ہوئی ہے
میں سمندر تو نہیں ہوں یہ مجھے ہے معلوم
جانے کس رنج نے یہ لہر اچھالی ہوئی ہے
یوں ہی ہو جاتے نہیں کام مرے اپنے آپ
میں نے کچھ اپنے بزرگوں کی دعا لی ہوئی ہے
پھر کسی سمت ٹھکانہ نہیں ملتا اس کو
پھر ہوا آ کے مرے در پہ سوالی ہوئی ہے
دھوپ میں جلتے ہوئے پھول سے لوگوں کے حنیف
رنگ کالے ہوئے، پوشاک بھی کالی ہوئی ہے
محمد حنیف
No comments:
Post a Comment