پابند ہر جفا پہ تمہاری وفا کے ہیں
رحم اے بتو کہ ہم بھی تو بندے خدا کے ہیں
گلچیں بہار گل میں نہ کر منع سیر باغ
کیا ہم غبار دامن باد صبا کے ہیں
جس کو یقیں بقا کا ہو واعظ تری سنے
ہم لوگ مست بادۂ جامِ فنا کے ہیں
اے مہر طبعِ برق نے بے تاب دل کیا
مضموں چمک دمک کے قوافی بلا کے ہیں
مہر لکھنوی
No comments:
Post a Comment