Monday, 30 November 2020

کس موڑ پر ملے ہو

 کس موڑ پر ملے ہو؟

وہ خواب کا زمانہ

وہ رُوپ کا خزانہ

سب کچھ لٹا چکے ہم

یہ جسم و جاں جاناں

کس موڑ پر ملے ہو؟

کیا نام ہے تمہارا

کس نام سے پکاروں

کس طرح تجھ کو جیتوں

کس طرح تجھ کو ہاروں

کس موڑ پر ملے ہو؟

دروازہ کیسے کھولوں

دستک نہ دو خدارا

یہ قفلِ قیدِ ہستی

قسمت پر کس کو یارا

کس موڑ پر ملے ہو؟

اب دل کی وادیوں کے

جگنو بھی سو چکے ہیں

خوابوں کے سب جزیرے

ویران ہو چکے ہیں

کس موڑ پر ملے ہو؟

مڑ کر بھی آنا چاہوں

مڑ کر بھی آ نہ پاؤں

دامن بچانا چاہوں

دامن چھُڑا نہ پاؤں

کس موڑ پر ملے ہو؟


بشریٰ رحمٰن

No comments:

Post a Comment