ہمیں گرا کر کوئی مجازاً کھڑا رہے گا
ہماری چپ سے کسی کا رتبہ بنا رہے گا
بطور آرائشِ مکاں بس یہی بچا ہے
کسی کی آنکھیں کسی کا چہرہ پڑا رہے گا
گئے دنوں میں اداسیاں لا علاج ہی تھیں
ہمارے ہوتے بھی اک یہی مسئلہ رہے گا
زمیں فلک سے محض دکھاوے کو مل رہی ہے
تجھے گلے سے لگا بھی لیں تو خلا رہے گا
تم ایک خستہ مکان کو رنگ کر رہے ہو
مگر کہیں پر نمی کا اک حاشیہ رہے گا
ہوا کے ہوتے بھی سانس لینا کٹھن رہا ہے
تمہارے ہوتے بھی عالمِ تخلیہ رہے گا
علی ادراک
No comments:
Post a Comment