Sunday 29 November 2020

یہ آگ یونہی دلوں میں بھڑک نہیں جاتی

 یہ آگ یونہی دلوں میں بھڑک نہیں جاتی

فصیلِ ذہن سے تصویرِ شک نہیں جاتی

حنائی ہاتھ کی پوروں کا لمس وہ شے ہے

کہ اس گلاب کی برسوں مہک نہیں جاتی

ہوائے وقت اڑا لے گئی سبھی منظر

نظر سے تیری وہ پہلی جھلک نہیں جاتی

یہ بیج زخموں کے وارفتگی جواں کرے گی

یہ فصلِ گِریہ ہے عجلت میں پک نہیں جاتی

اسی لیے ہے یہ چہرہ ہمارا گرد آلود

تمہارے گاؤں کو پکی سڑک نہیں جاتی

ترے وصال کے لمحے ہیں دل پہ ثبت ابھی

سو تیرے ہجر کی دل سے کسک نہیں جاتی

وہ میرے دل میں یوں لڑکھڑا رہی ہے حسن

کہ جس طرح کوئی دیوی بہک نہیں جاتی


عطاءالحسن

No comments:

Post a Comment