بت کی مانند نہ اپنے کو بنائے رکھنا
جس جگہ رہنا وہاں دھوم مچائے رکھنا
خود کو دریا میں نہ قطروں سا ملائے رکھنا
منفرد ہونے کا احساس دلائے رکھنا
کام فرزانۂ دنیا کا نہیں اے ناصح
پرچمِ عشق زمانے میں اٹھائے رکھنا
چشمِ مخلوق ہے میزان رضائے مولا
چشم مخلوق میں خود کو نہ گرائے رکھنا
تجھ کو دینا ہو اگر ظلمتِ ہجراں کو شکست
شمع بجھ جائے مگر دل نہ بجھائے رکھنا
قلب خوددار کی خاطر تو ہے ذلت کا سبب
لَو سدا اس بتِ کافر سے لگائے رکھنا
جس سے ملتی ہو ہر اک لحظہ غزل کی خوشبو
صحن احساس میں وہ پھول کھلائے رکھنا
میرے دل کو تو کسی حال میں منظور نہیں
فکرِ دنیا میں تری یاد بھلائے رکھنا
مینو بخشی
No comments:
Post a Comment