Monday 30 November 2020

بے رخی اس کی بڑھی چہرہ گل زرد ہوا

 بے رخی اس کی بڑھی، چہرۂ گل زرد ہوا

کرب سینے میں اٹھا، لہجۂ دل سرد ہوا

یوں لگا دنیا میں کچھ بھی نہیں، کچھ بھی تو نہیں

یوں تو کہنے کو جدا مجھ سے بس اک فرد ہوا

کچھ محبت کا بھرم رکھتا زمانے کے لیے

کس قدر اجنبی مجھ سے مرا ہم درد ہوا

میں تو عورت تھی سہا دردِ جدائی میں نے

اس کے دل کی وہی جانے کہ وہ اک مرد ہوا

راکھ کا ڈھیر ہوئی زندگی پھر سے میری

گویا یہ دل نہ ہوا، خاک ہوا، گرد ہوا

دل مرا سارے زمانے نے دکھایا تھا سحر

آج جب اس نے دکھایا تو بہت درد ہوا


نادیہ سحر

No comments:

Post a Comment