ہوتے ہیں نبھانے کے تو دو چار تعلق
ہم یوں ہی بناتے رہے بے کار تعلق
ہے مشورہ میرا کہ پلٹ جائیں یہیں سے
یہ آپ کے بس کا نہیں سرکار تعلق
پہنچے گی محبت جوں ہی انجام کو اپنے
رہ جائیں گے پھر ہم میں یہ اشعار تعلق
روزن کی تمنا میں بھلا کس کو خبر تھی
بن جائے گی یہ بیچ کی دیوار تعلق
میں تجھ پہ بھروسے کے قریں ہوتی ہوں جب بھی
ہوتا ہے نیا تیرا نمودار تعلق
ہے اپنے وطن سے ہمیں بالکل وہی نسبت
رکھتے ہیں جو مٹی سے یہ اشجار تعلق
تم نے تو کئی بار ہمیں راہ میں چھوڑا
ہم نے ہی بچایا ہے ہر اک بار تعلق
آساں بڑا ہوتا ہے کوئی ربط بنانا
ہوتے ہیں نبھانے بڑے دشوار تعلق
کچھ لوگ منافق تھے نہیں بن سکی ان سے
ٹوٹے ہیں کئی ایسے لگاتار تعلق
شازیہ نورین
No comments:
Post a Comment