دیکھنا کیا ہے کہ اس منظر میں یکجا کیا ہوا
سارا عالم خواب ہے، لیکن مرا دیکھا ہوا
درد و غم لکھے تو مجھ پر کُھل گئی راہِ سخن
اشک کو کھنچا تو اک جادو بھرا مصرعہ ہوا
سوچتے ہی سوچتے آنکھوں میں آنسو آ گئے
دیکھتے ہی دیکھتے وہ آئینہ دھندلا ہوا
تُو مری تصویر پر کچھ غور کر تا کہ کُھلے
میں تمہارا عکس ہوں اور عکس ہوں چمکا ہوا
اس نے پاؤں ڈال کر دریا کو پاگل کر دیا
اس کے پاؤں دیکھ کر پانی کو جانے کیا ہوا
راستے میں باغ تھے باغوں میں پھولوں کی بہار
اور بہار ایسی کہ جس کا رنگ تھا مہکا ہوا
ہم اچانک مل کے بچھڑے پھر ملے پھر کھو گئے
راستوں میں موڑ تھے ہر موڑ پر دھوکہ ہوا
روشنی آنکھوں میں چبتی تھی دیوں میں آگ تھی
آگ میں پروانۂ خواہش ملا جلتا ہوا
دل دھڑکنے کی اجازت چاہتا ہے حسن سے
جب اجازت مل گئی دھڑکا نہیں سہما ہوا
اور پھر اک موڑ پر ہم کو بچھڑنا تھا اسد
دونوں کی قسمت میں تھا پہلے سے ہی لکھا ہوا
اسد کمال
No comments:
Post a Comment