اس کے لہجے کی توانائی سے اندازہ ہوا
وہ مِرا کتنا ہے؟ گہرائی سے اندازہ ہوا
کیا ہوا کرتا ہے اپنوں کی جدائی کا عذاب
ایک دو روز کی تنہائی سے اندازہ ہوا
مفلسی کیسے سِسکتی ہے سہاگن بن کر
ایک لَے توڑتی شہنائی سے اندازہ ہوا
شام کس طرح نِگل جاتی ہے جلتا سورج
اپنی جاتی ہوئی بینائی سے اندازہ ہوا
لوگ کیسے یہاں زخموں پہ چھڑکتے ہیں نمک
زندگی! تیری مسیحائی سے اندازہ ہوا
فیض آنکھوں کے سمندر میں ہے کتنا پانی
درد کی ڈولتی پُروائی سے اندازہ ہوا
فیض خلیل آبادی
No comments:
Post a Comment