بنامِ عشق عبادت میں کچھ مزا بھی تو ہو
سرِِ نیاز ہے خم، سامنے خدا بھی تو ہو
مجھے قبول مگر، آپ کی عدالت میں
خلافِ عدل سہی، کوئی فیصلہ بھی تو ہو
سلگ کے مرنے کا بھی یہ عمل ہنر ہی سہی
کمالِ فن میں مِری خاکِ کیمیا بھی تو ہو
کھِلوں میں شاخ پہ اپنے ہی رنگ میں اک دن
مِرے وجود سے خوشبو تِری جدا بھی تو ہو
نگار و نقش بناؤں، نہ خال و خد لکھوں
مِرے خیال کی حد سے وہ ماورأ بھی تو ہو
بچھڑ کے جاؤں اسی سے میں ڈھونڈنے اس کو
مِری تلاش کا حاصل مجھے ملا بھی تو ہو
نکل پڑوں نئی منزل کی کھوج میں لیکن
جو تیرے در پہ نہ پہنچے وہ راستہ بھی تو ہو
کہاں کے ایسے ہیں ہم بے مثال بھی لیکن
کوئی ہماری طرح، کوئی آپ سا بھی تو ہو
ناصرہ زبیری
No comments:
Post a Comment