دلوں میں وحشتیں آباد کر کے
صدائیں دے رہی ہوں یاد کر کے
مجھے مارا ہے میرے دوستوں نے
❤نئی طرزِ ستم ایجاد کر کے
قفس میں ایک پنچھی رو رہا تھا
وطن کے رنگ و بُو سب یاد کر کے
تمہاری زندگی مانگی ہے ہم نے
خدا کے سامنے فریاد کر کے
میاں تنہا میں خود سے پوچھتی ہوں
ملا کیا خود کو ہی برباد کر کے
پرندے دیکھ کر آنگن میں تُف ہے
شکاری خوش نہیں آزاد کر کے
عجب راحت میسر آ گئی ہے
میں روئی تھی خدا کو یاد کر کے
اسماء ہادیہ
No comments:
Post a Comment