ہم تو معصوم سمجھ ہیں لوگو
اتنے پر پیچ مت بنو لوگو
اس کی عادت تھی پیار کی بولی
اور ہم دل بھی دے چکے لوگو
اس کی پھیلی ہوئی بانہوں کی قسم
سارے شکوے ہی دھل گئے لوگو
چھوڑو بدلہ سکوں نہیں دیتا
معاف کرنے میں ہی بھلا لوگو
کالی راتوں سے خوف آتا ہے
اس کا کاجل مگر بھلا لوگو
کون کہتا ہے سنگ بے دل ہیں
ہم نے روتے انہیں سنا لوگو
چاشنی گفتگو میں تھی تو مگر
کچھ تو آنکھوں میں تلخ تھا لوگو
دل کا دروازہ کھول رکھا تھا
اس میں دشمن بھی آ بسا لوگو
اس کی حالت لہو رلاتی ہے
جس کی منزل پہ موت ہو لوگو
اس محبت کی چیخ گونجے گی
جس پہ سنگِ انا پڑا لوگو
دیکھو ہرگز ہمیں بھلانا نہیں
ہم نے اپنا تمہیں کہا لوگو
زبیدہ صابر
No comments:
Post a Comment