نئے بیان سے بھی انحراف کرنا ہے
ابھی گواہ نے کچھ انکشاف کرنا ہے
خلافِ عقل سہی، فیصلہ عدالت نے
ہر ایک بار جنوں کے خلاف کرنا ہے
جلا ہے تیز ہوا سے گریز کرتے ہوئے
دِیے نے کھل کے ابھی اختلاف کرنا ہے
حصارِ عشق میں پھر جا کے بیٹھنا ہے مجھے
شروع، دل نے نیا اعتکاف کرنا ہے
پھر اس کے بعد تو رستہ نکل ہی آئے گا
فصیلِ ذات میں پہلا شگاف کرنا ہے
مدارِ عشق سے اب وقت ہے نکلنے کا
مگر یہ دل کہ اِسے پھر طواف کرنا ہے
گرہیں تمام مجھے دل کی کھولنی ہیں ابھی
معاملے کی نوعیت کو صاف کرنا ہے
تمام عمر کے ان بوند بوند اشکوں نے
کسی کے دل میں ذرا سا شگاف کرنا ہے
ناصرہ زبیری
No comments:
Post a Comment