Thursday, 26 November 2020

نئے بیان سے بھی انحراف کرنا ہے

 نئے بیان سے بھی انحراف کرنا ہے

ابھی گواہ نے کچھ انکشاف کرنا ہے

خلافِ عقل سہی، فیصلہ عدالت نے

ہر ایک بار جنوں کے خلاف کرنا ہے

جلا ہے تیز ہوا سے گریز کرتے ہوئے

دِیے نے کھل کے ابھی اختلاف کرنا ہے

حصارِ عشق میں پھر جا کے بیٹھنا ہے مجھے

شروع، دل نے نیا اعتکاف کرنا ہے

پھر اس کے بعد تو رستہ نکل ہی آئے گا

فصیلِ ذات میں پہلا شگاف کرنا ہے

مدارِ عشق سے اب وقت ہے نکلنے کا

مگر یہ دل کہ اِسے پھر طواف کرنا ہے

گرہیں تمام مجھے دل کی کھولنی ہیں ابھی

معاملے کی نوعیت کو صاف کرنا ہے

تمام عمر کے ان بوند بوند اشکوں نے

کسی کے دل میں ذرا سا شگاف کرنا ہے


ناصرہ زبیری

No comments:

Post a Comment