Thursday 26 November 2020

چلو ہم ایسا کرتے ہیں پھر سے ساتھ چلتے ہیں

 چلو ہم ایسا کرتے ہیں

پھر سے ساتھ چلتے ہیں

اگر ایسا نہیں ممکن تو ماضی کے دریچوں میں

ذرا سا جھانک لیتے ہیں

ماں کی گود میں بیٹھے بچے کی طرح سے ہم

ذرا انجان بنتے ہیں

چلو پھر ایسا کرتے ہیں کہ مٹی کے گھروندوں میں

اپنا آپ رکھتے ہیں

تم گڑیا اٹھا لانا، میں گڈا بھی لاؤں گی

امی کے ہاتھ کے چاول بھی تم کو میں کھلاؤں گی

چلو وہ کھیل کھیلیں گے اپنے گھر کے آنگن میں

جہاں برگد تلے گھنٹوں بیت جاتے تھے

نہ کوئی وہم ستاتے تھے

چلو ذرا آگے کو بڑھتے ہیں، مگر ٹھہرو

اپنی ذات کو مٹی کے گھروندے میں

ملا آنا

کہ آگے چل کہ اپنا نفس بہت بہک سا جاتا ہے

رشتوں کی نزاکت میں الجھ جاتا ہے اک دم سے

یہ دھاگا کاٹ کر آنا

چلو ہر رنگ کی دنیا میں

تھامے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ چلتے ہیں

اور تکتے ہیں کہاں پہ ہاتھ چھوٹا تھا

کس انا کی چھت اونچی تھی

کس نے نظروں سے گرایا تھا

کس کی ذات پر اس رنج کا گہرا سایہ تھا

کس نے پیچھے رہتے ہاتھ کو پیچھا دکھایا تھا

ماضی کے اس المیے کا موڑ کیسا تھا

وہیں سے موڑ مڑ لیں گے کہ ہم نے ساتھ چلنا ہے


ہالہ ظفر

No comments:

Post a Comment