چلو ہم ایسا کرتے ہیں
پھر سے ساتھ چلتے ہیں
اگر ایسا نہیں ممکن تو ماضی کے دریچوں میں
ذرا سا جھانک لیتے ہیں
ماں کی گود میں بیٹھے بچے کی طرح سے ہم
ذرا انجان بنتے ہیں
چلو پھر ایسا کرتے ہیں کہ مٹی کے گھروندوں میں
اپنا آپ رکھتے ہیں
تم گڑیا اٹھا لانا، میں گڈا بھی لاؤں گی
امی کے ہاتھ کے چاول بھی تم کو میں کھلاؤں گی
چلو وہ کھیل کھیلیں گے اپنے گھر کے آنگن میں
جہاں برگد تلے گھنٹوں بیت جاتے تھے
نہ کوئی وہم ستاتے تھے
چلو ذرا آگے کو بڑھتے ہیں، مگر ٹھہرو
اپنی ذات کو مٹی کے گھروندے میں
ملا آنا
کہ آگے چل کہ اپنا نفس بہت بہک سا جاتا ہے
رشتوں کی نزاکت میں الجھ جاتا ہے اک دم سے
یہ دھاگا کاٹ کر آنا
چلو ہر رنگ کی دنیا میں
تھامے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ چلتے ہیں
اور تکتے ہیں کہاں پہ ہاتھ چھوٹا تھا
کس انا کی چھت اونچی تھی
کس نے نظروں سے گرایا تھا
کس کی ذات پر اس رنج کا گہرا سایہ تھا
کس نے پیچھے رہتے ہاتھ کو پیچھا دکھایا تھا
ماضی کے اس المیے کا موڑ کیسا تھا
وہیں سے موڑ مڑ لیں گے کہ ہم نے ساتھ چلنا ہے
ہالہ ظفر
No comments:
Post a Comment