گلشن میں انتشار کا قائل نہیں ہوں میں
ایسی کسی بہار کا قائل نہیں ہوں میں
ترجیح دوں گا موت کو میں پیاس کے سبب
ساقی مگر ادھار کا قائل نہیں ہوں میں
اٹھ جائے حشر میرے لہو میں تو بات ہے
معمول کے فشار کا قائل نہیں ہوں میں
تجھ میں جو خامیاں ہیں وہ منہ پر بتاؤں گا
یوں پیٹھ پیچھے وار کا قائل نہیں ہوں میں
دعویٰ اگر ہےعشق میں پھر ضبط بھی تو ہو
ہائے ہوں بے قرار” کا قائل نہیں ہوں میں“
فرقت ہو تو ہمیشہ کی، یا وصل دائمی
بس ایک شب گزار” کا قائل نہیں ہوں میں“
تشنہ بس ایک جام کہ مٹ جائے تشنگی
ہاں مستی و خمار کا قائل نہیں ہوں میں
عامر شہزاد تشنہ
No comments:
Post a Comment