Thursday 26 November 2020

کیسے ساتھ نبھاؤں گا میں ایسے میں

 کیسے ساتھ نبھاؤں گا میں ایسے میں

میری تو منزِل ہے تیرے رستے میں

پہلے تو کی میں نے بات محبت سے

پھر سمجھایا اس کو اسی کے لہجے میں

اب ہم دونوں آزادی سے رہتے ہیں

قدرت نے ہم کو باندھا ہے رِشتے میں

بن جاتا ہے یہ کمزوری لوگوں کی

کتنی طاقت ہوتی ہے اس پیسے میں

تُو نے تو بس مجھ میں خوبی دیکھی ہے

ہوتے ہیں سو عیب بھی لیکن بندے میں

تم حسنِ تخلیق بھی کہہ سکتے ہو اسے

یہ جو آدھا جھوٹ ہے پورے قصے میں

کیفی بیٹھ محبت سے کچھ بات کریں

کیا رکھا ہے خاموشی میں، غصے میں


محمود کیفی

No comments:

Post a Comment