ندی کے شور میں دکھ سنتی کوہساروں کا
تڑپنا دیکھتی پتھر پہ آبشاروں کا
کبھی خزاں کی مسرت کا تجزیہ کرتے
کبھی نظر میں بھی آتا الم بہاروں کا
بھٹک رہی ہیں حوادث میں کشتیاں لیکن
کوئی بھی ذکر نہیں کرتا اب کناروں کا
فنا کے موڑ پہ ہے روشنی🌟 کی رنگینی
عجیب زور ہے تیرہ شبی کے دھاروں کا
اڑا کے خاک بتاتی رہی یہ منزلِ عشق
حساب قافلے رکھتے نہیں غباروں کا
کسی نے بھی نہیں سمجھا غمِ دلِ مضطر
☀بڑا ہجوم لگا گرچہ غمگساروں کا☀
بہت سے خوف مرے اندرون پلتے ہیں
یہی تو حال ہے ہم وحشتوں کے ماروں کا
اسماء ہادیہ
No comments:
Post a Comment