Thursday 26 November 2020

ندی کے شور میں دکھ سنتی کوہساروں کا

 ندی کے شور میں دکھ سنتی کوہساروں کا

تڑپنا دیکھتی پتھر پہ آبشاروں کا

کبھی خزاں کی مسرت کا تجزیہ کرتے

کبھی نظر میں بھی آتا الم بہاروں کا

بھٹک رہی ہیں حوادث میں کشتیاں لیکن

کوئی بھی ذکر نہیں کرتا اب کناروں کا

فنا کے موڑ پہ ہے روشنی🌟 کی رنگینی

عجیب زور ہے تیرہ شبی کے دھاروں کا

اڑا کے خاک بتاتی رہی یہ منزلِ عشق

حساب قافلے رکھتے نہیں غباروں کا

کسی نے بھی نہیں سمجھا غمِ دلِ مضطر

☀بڑا ہجوم لگا گرچہ غمگساروں کا☀

بہت سے خوف مرے اندرون پلتے ہیں

یہی تو حال ہے ہم وحشتوں کے ماروں کا


اسماء ہادیہ

No comments:

Post a Comment