Thursday 26 November 2020

عمرِ رفتہ میں تیرے ہاتھ بھی کیا آیا ہوں

 عمرِ رفتہ میں تیرے ہاتھ بھی کیا آیا ہوں

دن بِتانے تھے مگر خود کو بِتا آیا ہوں

کل دے آؤں گا جا کر اسے اپنی بینائی بھی

آنکھ دیوار پہ فی الحال بنا آیا ہوں

اپنے آنسو بھی کیے نظر کسی پانی کے

پیاس دریا کی بحر طور بجھا آیا ہوں

دھول بھی ایسے قرینے سے اڑائی ہے کہ میں

ایک مرتے ہوئے رستے کو بچا آیا ہوں

اب پریشاں ہوں کہ تعبیر کا جانے کیا ہو

بند کانوں کو نئے خواب سنا آیا ہوں

میرے پاؤں ہی نہیں قید سے باہر آئے

اپنی زنجیر کو بھی کر کے رہا آیا ہوں

جانے کس گھاٹ لگے عمر کی کشتی احمد

خود کو سُوکھے ہوئے دریا میں بہا آیا ہوں


آفتاب احمد

No comments:

Post a Comment