اے موج صبا! سوز مجسم اسے کہنا
ممکن ہے وہ پوچھے مرا عالم اسے کہنا
چاہا مرے حالات نے پیہم اسے کہنا
لیکن نہ ہوئی پیار کی لو کم اسے کہنا
اک ہم ہی نہیں شاکیٔ عالم اسے کہنا
اب اہل طرب کو بھی ہے یہ غم اسے کہنا
شاید کبھی پڑ جائے کسی طور ضرورت
ملتے ہیں سر راہگزر ہم اسے کہنا
تو کس لیے ناراض ہوا اہل وفا سے
دنیا تو ہمیشہ سے ہے برہم اسے کہنا
کہنا تو بہت کچھ ہے مگر مصلحت وقت
بے آب سے ہیں شعلہ و شبنم اسے کہنا
مانا کہ مرے دم سے نہیں بزم کی رونق
پھر بھی تو غنیمت ہے مرا دم اسے کہنا
نکہت بریلوی
No comments:
Post a Comment