Friday 27 November 2020

گھر بلاتا ہے کبھی شوق سفر کھینچتا ہے

 گھر بلاتا ہے کبھی شوقِ سفر کھینچتا ہے

دوڑ پڑتا ہوں مجھے جو بھی جدھر کھینچتا ہے

اس طرح کھینچتی ہیں مجھ کو کسی کی آنکھیں

جیسے طوفان میں کشتی کو بھنور کھینچتا ہے

کیسے ممکن ہے بھلا چاند نہ دیکھے کوئی

حسن کامل ہو تو پھر خود ہی نظر کھینچتا ہے

شام ڈھلتے ہی تیری سمت چلا آتا ہوں

جیسے بھٹکے ہوئے پنچھی کو شجر کھینچتا ہے

شوق کی بات ہے ورنہ سخن آسان نہیں

ایک مصرع بھی میاں خونِ جگر کھینچتا ہے

اس کے کوچے سے گزرنے کا سبب ہے تاثیر

ایک جھونکا سا ہے خوشبو کا ادھر کھینچتا ہے


نثار محمود تاثیر

No comments:

Post a Comment