بے نیازی نے تیری قربت اغیار تو دی
تلخئ جام نے شیرینئ گُفتار تو دی
سانپ بیٹھا ہے سر پر تِرے کُنڈلی مارے
اور تُو خوش ہے کہ اس نے تجھے دستار تو دی
بھیڑ میں ہو گیا گُم ایک شناسا چہرہ
نام لے لے کے صدا ہم نے کئی بار تو دی
عشق میں کس کو یہاں گوہرِ مقصود ملا
ہاں مگر اس نے ہمیں فُرصتِ بے کار نہ دی
یاد جب بھی کیا اس پردہ نشیں نے ہم کو
ہم نے خلوت میں اسے سُرخئ رُخسار تو دی
لفظ سے ہم نے تراشے ہیں کئی قصر خرام
خُوش خیالی نے ہمیں خوبئ معمار تو دی
خرم خرام صدیقی
No comments:
Post a Comment