شبِ وصال مزا دے رہی ہے تو تیری
لبوں سے گھولتی ہے قند گفتگو تیری
تری زباں کو بگاڑا رقیبِ بد خُو نے
کہ بات بات میں گالی تو تھی نہ خُو تیری
لگا رہا ہے حنا کون تیرے ہاتھوں میں
رُلا رہی ہے مجھے خون آرزو تیری
ترے سکوت میں بھی اک ادا نکلتی ہے
کہ ہے چھپی ہوئی پردے میں گفتگو تیری
نہ چاک کر دل بے تاب کو مرے ظالم
نکل کے ہو کہیں رُسوا نہ آرزو تیری
کبھی ہے قصد حرم کا کبھی ہے عزمِ کنشت
کشاں کشاں لیے پھرتی ہے آرزو تیری
سرور جہاں آبادی
No comments:
Post a Comment