تری چال دھن تری سانس سر مرے دل کو آ کے سنبھال بھی
جو یہ جل ترنگ ذرا بجا تو یہ ڈال دے گا دھمال بھی
نہ اچھال جھیل میں کنکری کہ یہ خوفناک سا کھیل ہے
اسی کھیل میں نہ اتر پڑے تری آنکھ پر یہ وبال بھی
کئی لوگ مورچہ بند خوف کی ریت میں ہیں کرم کرم
ترے ہاتھ میں یہ جو سنگ ہے کسی سمت اس کو اچھال بھی
اے مکرتی آنکھ عداوتیں تو قیام بھی ہیں ثبات بھی
ترے ساتھ دشمنی اک طرف نہیں دوستی کی مجال بھی
ترے ترک راہ کے فیصلے کا جواز میں نہیں مانگتا
مگر آنے والا کوئی تو وقت اٹھائے گا یہ سوال بھی
یدِ بیضا کی تُو ہے مالکن اے سفید سنگ کی مورتی
تری آنکھ دریائے نیل ہے مری رات کوئی نکال بھی
تنویر مونس
No comments:
Post a Comment