نیند ذرا سی جب بھی آنے لگتی ہے
یاد تمہاری شور مچانے لگتی ہے
ساتھ ملاتے ہیں آواز پرندے بھی
ہوا مجھے جب گیت سنانے لگتی ہے
دیکھ کے کھڑکی سے بارش کو پاگل لڑکی
آج بھی دو کپ چائے بنانے لگتی ہے
سانپ مجھے اب اکثر اوپر کھینچتا ہے
سیڑھی جب بھی مجھے گرانے لگتی ہے
کمرے میں زنجیر سے جکڑی تنہائی
ڈائن بن کے مجھ کو کھانے لگتی ہے
پچھلے چہروں کو دفنا کے مٹی میں
آنکھ نیا اک عکس اگانے لگتی ہے
کچے پکے آم سہم سے جاتے ہیں
جب بھی چڑیا شاخ ہلانے لگتی ہے
اس کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کے دیکھنا تم
دنیا کیسے آنکھ چرانے لگتی ہے
ہاتھ میں لے کر سورج کا نارنجی البم
شام وہ فوٹو کسے دکھانے لگتی ہے
دروازے پہ آن رکے باراتی، تب
دلہن اک تصویر جلانے لگتی ہے
مجھ کو پاس بٹھا کے ماں کی خاموشی
سارے دل کے راز بتانے لگتی ہے
میرے آنچل پہ ست رنگی کرنوں سے
روشنی کوئی پھول بنانے لگتی ہے
ناہید اختر بلوچ
No comments:
Post a Comment