Friday 27 November 2020

نیند ذرا سی جب بھی آنے لگتی ہے

 نیند ذرا سی جب بھی آنے لگتی ہے

یاد تمہاری شور مچانے لگتی ہے

ساتھ ملاتے ہیں آواز پرندے بھی

ہوا مجھے جب گیت سنانے لگتی ہے

دیکھ کے کھڑکی سے بارش کو پاگل لڑکی

آج بھی دو کپ چائے بنانے لگتی ہے

سانپ مجھے اب اکثر اوپر کھینچتا ہے 

سیڑھی جب بھی مجھے گرانے لگتی ہے 

کمرے میں زنجیر سے جکڑی تنہائی 

ڈائن بن کے مجھ کو کھانے لگتی ہے 

پچھلے چہروں کو دفنا کے مٹی میں

آنکھ نیا اک عکس اگانے لگتی ہے

کچے پکے آم سہم سے جاتے ہیں 

جب بھی چڑیا شاخ ہلانے لگتی ہے 

اس کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کے دیکھنا تم 

دنیا کیسے آنکھ چرانے لگتی ہے 

ہاتھ میں لے کر سورج کا نارنجی البم 

شام وہ فوٹو کسے دکھانے لگتی ہے

دروازے پہ آن رکے باراتی، تب

دلہن اک تصویر جلانے لگتی ہے

مجھ کو پاس بٹھا کے ماں کی خاموشی 

سارے دل کے راز بتانے لگتی ہے 

میرے آنچل پہ ست رنگی کرنوں سے 

روشنی کوئی پھول بنانے لگتی ہے


ناہید اختر بلوچ

No comments:

Post a Comment