Friday, 27 November 2020

کوئی کسی کا یار اب نہیں رہا

 کوئی کسی کا یار اب نہیں رہا

وفا کا پاسدار اب نہیں رہا

یہ گفتگو تو ہو رہی ہے عادتاً

وہ عشق وہ خمار اب نہیں رہا

تری نظر کا تیر اے ستم شعار

جگر کے آر پار اب نہیں رہا

نکل چکی ہیں عشق کی کثافتیں

لہو میں انتشار اب نہیں رہا

رلا دیا فسانۂ رقیب نے

وہ میرا غمگسار اب نہیں رہا

کسی کی بے رخی نے چھین لی ہنسی

مزاجِ پُر بہار اب نہیں رہا

کبھی تو مجھ کو یاد کر کے روئے گا

جو کہہ رہا ہے پیار اب نہیں رہا

بھلا چکا ہے وہ مرے وجود کو

مجھے بھی انتظار اب نہیں رہا

ملے ہوئے ہیں رہزنوں سے راہبر

کسی کا اعتبار اب نہیں رہا


منزہ سید

No comments:

Post a Comment