سنتا نہیں ہے دل تو اس بے وفا کی باتیں
کل پر اٹھا کے رکھو اس بے وفا کی باتیں
دل ہے اداس، اب تو اس تذکرے کو بدلو
کیوں ہو مُصر کہ سن لو اس بے وفا کی باتیں
آج اس نے ہے رُلایا،۔ ہم کو بہت ستایا
ہم سے نہ کرنا اب تو اس بے وفا کی باتیں
ٹوٹے ہیں خواب میرے اب دفن ان کو کر دو
دہرا بھی کیوں رہے ہو اس بے وفا کی باتیں
ہم کو سمیٹنا ہیں اب دل کی کرچیاں بھی
توڑا ہے دل کو دیکھو اس بے وفا کی باتیں
اس کی جدائی کیسے اب ہم دعا سہیں گے
کچھ دیر پھر سے کر لو اس بے وفا کی باتیں
دعا علی
No comments:
Post a Comment