زہر کو جان کے زخموں کی دوا، لیتے ہیں
تیری تصویر کو سینے سے لگا لیتے ہیں
تو اگر غم کا صحیفہ ہے تو پڑھتے ہیں تجھے
جشنِ امید اگر ہے تو منا لیتے ہیں
ہم سے مر کھپ کے بھی اک ہجر کا چارہ نہ ہوا
آپ اچھے ہیں ہر اک بات بنا لیتے ہیں
قہر اس دیس پہ نازل ہو خدایا جس میں
لوگ مزدور کی اجرت بھی چرا لیتے ہیں
پھول مرجھا گئے افتاد چمن سے قیصر
آؤ کانٹوں سے کوئی عہد وفا لیتے ہیں
علی قیصر رومی
No comments:
Post a Comment