Saturday, 4 September 2021

گرچہ جاتے ہوئے میں نے اسے روکا بھی نہیں

گرچہ جاتے ہوئے میں نے اسے روکا بھی نہیں

پیار اس سے نہ رہا ہو مجھے، ایسا بھی نہیں

مانگ لیتا میں محبت بھی بھکاری بن کر

درد سینے میں بہت تھا، مگر اتنا بھی نہیں

جس کی آہٹ پہ، نکل پڑتا تھا کل سینے سے

دیکھ کر آج اسے دل مِرا، دھڑکا بھی نہیں

اس کو پا کر بھی اگرچہ رہا تنہا میں، مگر

اورکچھ میں نے خدا سے کبھی مانگا بھی نہیں

مجھ کو منزل کی کوئی، فکر نہیں ہے یارب

پر بھٹکتا ہی رہوں جس پہ، وہ رستہ بھی نہیں

اتنا قلاش نہ ہو کوئی کہیں دنیا میں

آس کیا ، دل میں مِرے کوئی تمنا بھی نہیں

منتظر میں بھی کسی شام نہیں تھا اس کا

اور وعدے پہ کبھی شخص وہ آیا بھی نہیں

جانے کس طرح اُتر آیا مِری غزلوں میں

وہ تصور جسے میں نے کبھی سوچا بھی نہیں

اور اب اس کو بھی شہزاد شکایت ہے یہی

عشق تو دور ہے، میں نے اسے چاہا بھی نہیں


فرحت شہزاد

No comments:

Post a Comment