Saturday, 4 September 2021

میری چاہت کا امتحاں لے کر

 میری چاہت کا امتحاں لے کر

خوش ہے کتنا وہ اک گماں لے کر

تجھ سے ملنے کی آرزو نہ رہی

وقت آیا ہمیں کہاں لے کر

ہم نے دیکھی عجیب تنہائی

اپنی آنکھوں میں اک جہاں لے کر

مجھ کو دے دو زمین کی پستی

میرے سر سے یہ آسماں لے کر

ہم چلے آئے جانبِ صحرا

ایک دریائے غم رواں لے کر

میرے حصے میں سنگِ دشنامی

پھر سے آئے ہیں مہرباں لے کر

تُو بھی رسوا کہیں نہ ہو جائے

پارسائی یہ رائیگاں لے کر


زریں منور

No comments:

Post a Comment