میری چاہت کا امتحاں لے کر
خوش ہے کتنا وہ اک گماں لے کر
تجھ سے ملنے کی آرزو نہ رہی
وقت آیا ہمیں کہاں لے کر
ہم نے دیکھی عجیب تنہائی
اپنی آنکھوں میں اک جہاں لے کر
مجھ کو دے دو زمین کی پستی
میرے سر سے یہ آسماں لے کر
ہم چلے آئے جانبِ صحرا
ایک دریائے غم رواں لے کر
میرے حصے میں سنگِ دشنامی
پھر سے آئے ہیں مہرباں لے کر
تُو بھی رسوا کہیں نہ ہو جائے
پارسائی یہ رائیگاں لے کر
زریں منور
No comments:
Post a Comment