عصر کا پھول اگر عمر کے گل دان میں ہو
سوکھ جانے کا زمانہ بھی مِرے دھیان میں ہو
جس کی چیزوں کو تو اک بار اگر رد کر دے
اس دکاندار پہ واجب ہے کہ نقصان میں ہو
دیوسائی کی زمینوں سے اٹھے میرا خمیر
اور مِرا اگلا جنم وادئ مکران میں ہو
ہلکے رنگوں میں خدا رکھتا نہیں کوئی کشش
مجھ سے مل کر بھی جدائی تِرے امکان میں ہو
شہر کو جاتے ہوئے شخص اسے غور سے دیکھ
کل یہ گاؤں تِری اولاد کی پہچان میں ہو
میں اندھیرے میں رکھوں پھر بھی مِرا شکر کرے
اتنی دانائی تو آخر مِِرے مہمان میں ہو
وقت کی نسل بڑھانے کا مقام آئے مگر
یہ ہنر صرف نئے دور کے انسان میں ہو
تیرنا آتا بھی ہو مجھ کو بھنور میں لیکن
ڈوب جانے کا طریقہ بھی مرے دھیان میں ہو
شام کا ہاتھ ہو تنہائی کے ہاتھوں میں منیر
ایک دنیا کی اداسی مِرے دالان میں ہو
منیر جعفری
No comments:
Post a Comment