ذہن بے سمت خیالوں کا نشانہ ہے یہاں
زندگی جیسے یوں ہی ٹھوکریں کھانا ہے یہاں
نغمہ نوحہ ہے یہاں، چیخ ترانہ ہے یہاں
بات سو ڈھنگ سے کرنے کا بہانہ ہے یہاں
قہقہہ اپنی تباہی پہ لگانا ہے یہاں
اس خزانہ کو بہر حال لٹانا ہے یہاں
کل کتب خانوں کی ہم لوگ بھی رونق ہوں گے
ہر حقیقت کے مقدر میں فسانہ ہے یہاں
اس خرابے سے نکل کر لبِ دریا کیا جائیں
ایک قطرے میں سمندر کا فسانا ہے یہاں
کیسے بے حرف و صدا درد کی روداد کہیں
ایک ایک لفظ تو صدیوں کا پرانا ہے یہاں
گھر سے گھبرا کے جو نکلا تو یہ بولی دہلیز
پاؤں شل ہوں گے تو پھر لوٹ کے آنا ہے یہاں
ہر طرف سوچ میں ڈوبے ہوئے یکساں چہرے
جیسے ہر چار طرف آئینہ خانہ ہے یہاں
ساغر مہدی
No comments:
Post a Comment