Saturday, 4 September 2021

ذہن بے سمت خیالوں کا نشانہ ہے یہاں

 ذہن بے سمت خیالوں کا نشانہ ہے یہاں

زندگی جیسے یوں ہی ٹھوکریں کھانا ہے یہاں

نغمہ نوحہ ہے یہاں، چیخ ترانہ ہے یہاں

بات سو ڈھنگ سے کرنے کا بہانہ ہے یہاں

قہقہہ اپنی تباہی پہ لگانا ہے یہاں

اس خزانہ کو بہر حال لٹانا ہے یہاں

کل کتب خانوں کی ہم لوگ بھی رونق ہوں گے

ہر حقیقت کے مقدر میں فسانہ ہے یہاں

اس خرابے سے نکل کر لبِ دریا کیا جائیں

ایک قطرے میں سمندر کا فسانا ہے یہاں

کیسے بے حرف و صدا درد کی روداد کہیں

ایک ایک لفظ تو صدیوں کا پرانا ہے یہاں

گھر سے گھبرا کے جو نکلا تو یہ بولی دہلیز

پاؤں شل ہوں گے تو پھر لوٹ کے آنا ہے یہاں

ہر طرف سوچ میں ڈوبے ہوئے یکساں چہرے

جیسے ہر چار طرف آئینہ خانہ ہے یہاں


ساغر مہدی

No comments:

Post a Comment