Saturday, 4 September 2021

ہمسفر تھا ہی نہیں رخت سفر تھا ہی نہیں

 ہم سفر تھا ہی نہیں رختِ سفر تھا ہی نہیں

کچھ گنوانے کا مجھے خوف و خطر تھا ہی نہیں

مجھ کو ہر شام جہاں لے کے توقع آئی

در و دیوار تو موجود تھے گھر تھا ہی نہیں

انگلیاں زخمی ہوئیں تب مجھے احساس ہوا

دستکیں دی تھیں جہاں پر وہاں در تھا ہی نہیں

مجھ سے ہی پوچھا کیے میرے بکھرنے کا سبب

اہلِ دانش میں کوئی اہلِ نظر تھا ہی نہیں

دھول اڑائی جہاں خوابوں میں مسلسل میں نے

کسی نقشے میں کہیں پر وہ نگر تھا ہی نہیں

کس پہ الزام رکھیں کس پہ لگائیں تہمت

میری مٹی میں سمٹنے کا ہنر تھا ہی نہیں

یاد اک شخص تھا اک نام ہی ازبر تارا

سوا اس کے کوئی تا حدِ نظر تھا ہی نہیں


تارا اقبال

No comments:

Post a Comment